مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی مرضی اور حکم نہ ہو تو کوئی فرشتہ یا انسان کسی دوسرے کی مدد نہیں کر سکتا۔ مدد کرنے کی قوت اور طاقت بارگاہ ربوبیت سے ملتی ہے اور اسی کے اذن اور حکم سے مشکل کشائی ہوتی ہے۔ یہ ہستیاں خواہ فرشتے ہوں، جن ہوں یا انسان، حزب اللہ ’’یعنی اللہ کی ٹیم اور جماعت‘‘ کے کارکن ہیں اور ان کے کام، حقیقت میں اللہ کے کام ہیں۔ اس لئے نیابت کے طور پر وہ بھی ولی اور مددگار ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا :
اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰٰمَنُوا
(المائدة : 55)
’’بے شک تمہارا ولی (مددگار) تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور اہل ایمان تمہارے ولی (مددگار دوست) ہیں‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO
(التحريم : 4)
’’بے شک اللہ اس (رسول کریم) کا مولا (مددگار) ہے۔ جبریل اور نیک صاحب ایمان لوگ بھی ان کے مددگار ہیں اور اس کے بعد فرشتے بھی کھلم کھلا مددگار ہیں‘‘۔
یاد رہے کہ ’’مولا‘‘ کا لفظ کئی جگہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کے لئے استعمال ہوا ہے۔
اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِيْن.
(البقرة)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِيْر.
بے شک حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی ’’مولا‘‘ ہے لیکن قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین کو بھی مولا قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دوسرے کو مولا کہنے سے شرک نہیں ہوتا ورنہ قرآن مجید میں انہیں مولا نہ کہا جاتا۔ لیکن یہ مولا خود بخود نہیں بنے اللہ کے بنائے سے بنے ہیں۔
مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے؟
اب رہی یہ بات کہ اللہ کے سوا کیا کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا کہا جا سکتا ہے یا ایسا کہنا شرک کے دائرے میں آتا ہے؟
اس کا ایک جواب تو اوپر آگیا کہ فرشتوں اور صالح مومنین کا ’’مولا‘‘، مددگار ہونا خود قرآن سے ثابت ہے اور وہ خود مولا نہیں بنے بلکہ یہ منصب انہیں خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پڑھئے اور اس بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیجئے۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة.
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حدیث میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھائی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کو قابل تحسین قرار دیں۔ لیکن ہمارے یہ نادان بھائی اس کو شرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس موضوع پر بے شمار روایات اور دلائل موجود ہیں جن میں حاجت روائی، مشکل کشائی اور مدد و نصرت کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن کوئی ایسا مسلمان نہیں جو ان بندوں کو حقیقی مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ یہ رب العزت کی ذات اقدس ہی ہے جو ان بندوں سے اس نوعیت کے کام کرواتی ہے۔
ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کے لئے ہوتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ لِلّٰهِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائج النَّاسِ تَفْزع النَّاسُ اِلَيْهمِ فی حوائجهم اولٰئِکَ الاٰمِنُوْنَ مِنْ عَذاب اللّٰهِ.
(الترغيب والترهيب 3 : 390)
’’اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کے لئے ان سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذاب الہٰی سے محفوظ و مامون ہیں‘‘۔
علامہ محمد اقبال نے انہیں نفوس قدسیہ کے متعلق فرمایا تھا :
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دل نواز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
No comments:
Post a Comment