Sunday, August 21, 2022

Tuesday, June 21, 2022

وہ کیا ہے جو ہلانا سنت،ڈالنا فرض،اور نکالنا حرام ہے؟

السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ وہ کیا ہے جو ہلانا سنت،ڈالنا فرض،اور نکالنا حرام ہے؟بینوا توجروا
سائل محمد محفوظ عالم بدلا چوراہا ضلع شراوستی




وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ 
       بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب:- وہ میت ہے جو پانی میں ملی،غسل مسنون کی ادائیگی کے لئے اسے تین بار ہلانا سنت ہے،در مختار میں ہے"لو وجد میت فی الماء فیحرکہ فی الماءبنیۃالغسل ثلاثا"اھ ملخصا(ص200ج2) بہار شریعت میں ہے "مردہ پانی میں ملا تو بہ نیت غسل اسے تین بار پانی میں حرکت دے دیں کہ غسل مسنون ادا ہو جائے"اھ(ص814ح4مکتبۃالمدینہ) 
      دفنانے کے لئے قبر میں ڈالنا فرض(کفایہ)ہے،در مختار میں ہے"وحفر قبرہ"اھ اس کے تحت ردالمختار میں ہے"وھو فرض کفایۃ"اھ(ص233ج2) بہار شریعت میں ہے "میت کو دفن کرنا فرض کفایہ ہے"اھ(ص842ح4)
       دفنانےکے بعد بلا ضرورت شرعی قبر سے نکالنا حرام ہے،فتاوی امجدیہ میں ہے "جب مٹی دے چکے تو اب میت کو نکالنا جائز نہیں"(ص327ج1)
تفہیم المسائل میں ہے "میت کو قبر میں دفنانے کے بعد بغیر ضرورت شرعیہ کے قبر سے نکالنا حرام ہے،شرعی ضرورت سے مراد وہ امور ہیں جن کی ادائیگی کا تعلق حقوق العباد سے ہو،جیسے بغیر اجازت کےکسی کی زمین میں دفن کر دیا گیا ہو، یا دفن کرتے وقت کسی کی کوئی قیمتی چیز قبر میں گر گئی ہو تو ان صورتوں میں قبر کو کھولنا جائز ہے "اھ (ص152ج2)
   واللہ تعالی اعلم 

         کتبہ  
(الفقیر شان محمد قادری بقائ عفی عنہ)

Tuesday, June 29, 2021

علم ‏ولایت ‏کیا ‏ہے ‏


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا میں قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند کر کے ولایت کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہ ولایت ہی فیض نبوت ہے۔ ولایت علم صحیح سے جنم لیتی ہے اور اہل ایمان میں علی سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ امت میں علم و حکمت اور معرفت کے دس حصہ تقسیم کیے گئے، ان 10 میں 9 حصے حضرت علی علیہ السلام کو دیئے گئے، باقی ایک حصہ ساری امت میں تقسیم ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد سب سے بڑا عالم علی المرتضیٰ ہے۔

ولایت کے باب میں حقیقت یہ ہے کہ ولایت اور علم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی ولی ہو اور عالم نہ ہو۔ اللہ کا ولی کبھی جاہل نہیں ہو سکتا اور جاہل شخص کبھی ولی نہیں ہو سکتا۔ جو قرآن و سنت اور دین کے علم سے محروم ہے تو وہ ہر ثواب تو پا سکتا لیکن ولی نہیں ہو سکتا۔

روحانی طور پر علی علیہ السلام سے قطع تعلقی رکھنے والا علم ولایت سے کبھی بہرہ یاب نہیں ہو سکتا۔ جو علی کی ولایت سے کتراتا اور ان سے محبت نہیں رکھتا تو وہ علم ولایت کے اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتا، جس کا دروازہ علی ہے۔

مشکل کشا کا لقب
صحیح بخاری کے مطابق حضرت علی کو ’’مشکل کشا‘‘ کا لقب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا۔ اپنے دور خلافت میں جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آتا تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے کہ علمی مشکل علی کے بغیر حل نہیں ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر علی میرے ساتھ نہیں ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔

ولی کا تصرف
قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ صبا کا واقعہ ولایت کے علمی مقام کی دلیل ہے۔ جب ملکہ صبا کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں لانے کا ذکر ہوا تو فوری جنوں کے سردار نے تخت لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس نے کہا کہ آپ کی نشست ختم ہونے سے پہلے ملکہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک جن کی یہ پیشکش مسترد کر دی کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ اللہ کا کوئی ولی یہ کام کرے۔ پھر ایک اللہ کا ولی اور عالم شخص اٹھا، جس کو کتاب کا علم تھا۔ اس ولی اللہ نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ملکہ عالیہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ جب تخت لے آیا تو اس اللہ کے ولی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں لایا بلکہ کہا کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے۔

طریقت کے باب میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ولی کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز یا کام کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا اور دعوی بھی نہیں کرتا۔ جس بندے پر اللہ کا فضل ہو تو وہ دعویٰ نہیں کرتا بلکہ عاجزی سے جھک جاتا ہے۔

مومنین کے ولی علی
حضرت علی ہر مومن کے ولی ہیں۔ ولایت اور علم کے باب میں آپ کو امت محمدی کے لیے چشمہ بنا دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ واپسی پر راستے میں غدیر خم کے مقام پر حضرت علی کی ولایت کا اعلان فرمایا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ 12 بدری صحابہ کی جماعت نے گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی اور مولا ہوں علی بھی اس کا ولی دوست اور مولا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ جو علی سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد علی ہر مومن کا ولی ہے۔

بشارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسی طرح آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگوں میں تمہارے اندر دو بڑی اہم اور عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب قرآن اور دوسری میری اہل بیعت ہے۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیا سلوک کرتے ہو۔ رہتی دنیا تک قرآن اور اہل بیعت اکھٹے رہیں گے۔ حتی کہ قیامت کے دن بھی دونوں قرآن اور میری اہل بیعت میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ کو اپنی اہل بیعت میں باقاعدہ شامل کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوہ تبوک میں تشریف لے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو فرمایا کہ آپ ادھر ہی رہو۔ جب علی نے ساتھ نہ لیجانے کا شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ مجھ سے تمہارا رشتہ وہ ہے، جو سیدنا ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے، سوائے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

فتح خیبر
اسی طرح جب خیبر فتح نہیں ہو رہا تھا تو فتح کا جھنڈا علی علیہ السلام کو تھمایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتھ یہ گواہی بھی دی کہ صرف علی اللہ اور رسول سے محبت ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کا رسول بھی علی سے محبت کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے خیبر کا جھنڈا علی کو تھما کر فتح خیبر کا بھی اعلان فرما دیا اور الگے دن سب نے دیکھا کہ خیبر میں فتح علی کے ہاتھوں سے ملی۔

یا ‏مشکل ‏کشا ‏کہنا ‏کیسا ‏ہے ‏


مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی مرضی اور حکم نہ ہو تو کوئی فرشتہ یا انسان کسی دوسرے کی مدد نہیں کر سکتا۔ مدد کرنے کی قوت اور طاقت بارگاہ ربوبیت سے ملتی ہے اور اسی کے اذن اور حکم سے مشکل کشائی ہوتی ہے۔ یہ ہستیاں خواہ فرشتے ہوں، جن ہوں یا انسان، حزب اللہ ’’یعنی اللہ کی ٹیم اور جماعت‘‘ کے کارکن ہیں اور ان کے کام، حقیقت میں اللہ کے کام ہیں۔ اس لئے نیابت کے طور پر وہ بھی ولی اور مددگار ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا :

اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰٰمَنُوا

(المائدة : 55)

’’بے شک تمہارا ولی (مددگار) تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور اہل ایمان تمہارے ولی (مددگار دوست) ہیں‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO

(التحريم : 4)

’’بے شک اللہ اس (رسول کریم) کا مولا (مددگار) ہے۔ جبریل اور نیک صاحب ایمان لوگ بھی ان کے مددگار ہیں اور اس کے بعد فرشتے بھی کھلم کھلا مددگار ہیں‘‘۔

یاد رہے کہ ’’مولا‘‘ کا لفظ کئی جگہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کے لئے استعمال ہوا ہے۔

اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِيْن.

(البقرة)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِيْر.

بے شک حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی ’’مولا‘‘ ہے لیکن قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین کو بھی مولا قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دوسرے کو مولا کہنے سے شرک نہیں ہوتا ورنہ قرآن مجید میں انہیں مولا نہ کہا جاتا۔ لیکن یہ مولا خود بخود نہیں بنے اللہ کے بنائے سے بنے ہیں۔

مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے؟

اب رہی یہ بات کہ اللہ کے سوا کیا کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا کہا جا سکتا ہے یا ایسا کہنا شرک کے دائرے میں آتا ہے؟

اس کا ایک جواب تو اوپر آگیا کہ فرشتوں اور صالح مومنین کا ’’مولا‘‘، مددگار ہونا خود قرآن سے ثابت ہے اور وہ خود مولا نہیں بنے بلکہ یہ منصب انہیں خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پڑھئے اور اس بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیجئے۔

بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة.

’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حدیث میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھائی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کو قابل تحسین قرار دیں۔ لیکن ہمارے یہ نادان بھائی اس کو شرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس موضوع پر بے شمار روایات اور دلائل موجود ہیں جن میں حاجت روائی، مشکل کشائی اور مدد و نصرت کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن کوئی ایسا مسلمان نہیں جو ان بندوں کو حقیقی مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ یہ رب العزت کی ذات اقدس ہی ہے جو ان بندوں سے اس نوعیت کے کام کرواتی ہے۔

ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کے لئے ہوتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ لِلّٰهِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائج النَّاسِ تَفْزع النَّاسُ اِلَيْهمِ فی حوائجهم اولٰئِکَ الاٰمِنُوْنَ مِنْ عَذاب اللّٰهِ.

(الترغيب والترهيب 3 : 390)

’’اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کے لئے ان سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذاب الہٰی سے محفوظ و مامون ہیں‘‘۔

علامہ محمد اقبال نے انہیں نفوس قدسیہ کے متعلق فرمایا تھا :

خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دل نواز

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز

مولیٰ ‏علی ‏رضی ‏اللہ ‏تعالیٰ ‏عنہ ‏کو ‏مشکل ‏کشا ‏کہنا ‏کیسا ‏ہے

ﻣﻮﻻ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﻣﻮﻻ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ ﻗﺮﺍﻥ
ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺩﻻﺋﻞ
ﺑﮭﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﺮﯾﺮ
ﻣﻮﻻ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ
ﺟﺎﮨﻞ ﺑﺪﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﻮ ﺷﺮﮎ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ
ﻣﻮﻻ ﮐﮩﺎﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺸﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ
ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺸﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ
ﮐﻮ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺸﺎﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﮎ
ﺍﺏ ﺍﯾﺴﮯ ﺟﺎﮬﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ
ﺳﻨﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﺘﻮﮦ ﮐﻔﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ
ﺟﺒﮑﮧ ﻗﺮﺍﻥ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ
ﺟﻮﺍﺯ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ
ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺷﺮﮎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﻓَﺈِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻫُﻮَ ﻣَﻮْﻟَﺎﻩُ ﻭَﺟِﺒْﺮِﻳﻞُ ﻭَﺻَﺎﻟِﺢُ ﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨِﻴﻦَ
ﻭَﺍﻟْﻤَﻠَﺎﺋِﻜَﺔُ ﺑَﻌْﺪَ ﺫَﻟِﻚَ ﻇَﻬِﻴﺮٌo
ﺍﻟﺘﺤﺮﻳﻢ 4 : 66
’ﺳﻮ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯽ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﻭ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ
ﺟﺒﺮﯾﻞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻟﺢ ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
)ﺳﺎﺭﮮ( ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﮭﯽ )ﺍُﻥ ﮐﮯ( ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ۔‘‘
ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﻮﻻ ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ۔ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﮐﮯ ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ )ﻣﻮﻻ ( ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ :
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﯿﮏ ﺻﺎﻟﺢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﺮﺷﺘﮯﺑﮭﯽ
ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯽ ﻣﻮﻻ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺻﺎﻟﺢ
ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺪﺩ
ﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ‘
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮﻋﯿﺴﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﺪﺩ ﭼﺎﮨﯿﺘﮯ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﺻﺤﺎﺏ ﺳﮯ
ﻣَﻦْ ﺃَﻧﺼَﺎﺭِﻱ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟﻠّﻪِ. ﻗَﺎﻝَ ﺍﻟْﺤَﻮَﺍﺭِﻳُّﻮْﻥَ ﻧَﺤْﻦُ ﺍَﻧْﺼَﺎﺭُ ﷲِ
ﷲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﻮﻥ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ؟ )ﺗﻮ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﻣﺨﻠﺺ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ(: ﮨﻢ ﷲ ﮐﮯ
ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ،
ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ، 52 : 3
ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﺁﻗﺎﺋﮯ ﺩﻭﺟﮩﺎﮞ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺒﺐ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻭ۔‘‘
ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺴﻨﻦ، 664 :5، ﺭﻗﻢ3789 :، ﺑﻴﺮﻭﺕ، ﻟﺒﻨﺎﻥ:
ﺍﺣﻴﺎﺀ ﺍﻟﺘﺮﺍﺙ ﺍﻟﻌﺮﺑﻲ
’’ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺣﺴﻦ
ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻦ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺲ ﻧﮯ
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ
ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ
ﺣﺴﻦ ﻭﺣﺴﯿﻦ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔‘‘
ﺣﺎﮐﻢ، ﺍﻟﻤﺴﺘﺪﺭﮎ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺼﺤﻴﺤﻴﻦ، 181 :3، ﺭﻗﻢ:
4776، ﺑﻴﺮﻭﺕ، ﻟﺒﻨﺎﻥ: ﺩﺍﺭﺍﻟﮑﺘﺐ ﺍﻟﻌﻠﻤﻴﺔ
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎ ﮨﮯ
ﻋﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ, ﻗﺎﻝ:
ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ
ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﻦ ﻛﻨﺖ ﻣﻮﻻﻩ ﻓﻌﻠﻲ ﻣﻮﻻﻩ, ﻭﺳﻤﻌﺘﻪ ﻳﻘﻮﻝ:
ﺃﻧﺖ ﻣﻨﻲ ﺑﻤﻨﺰﻟﺔ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﻣﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺇﻻ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻧﺒﻲ
ﺑﻌﺪﻱ, ﻭﺳﻤﻌﺘﻪ ﻳﻘﻮﻝ: ﻷﻋﻄﻴﻦ ﺍﻟﺮﺍﻳﺔ ﺍﻟﻴﻮﻡ ﺭﺟﻼ
ﻳﺤﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺭﺳﻮﻟﻪ.
ﺗﺮﺟﻤﮧ: ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ )ﺹ( ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
„ ﺟﺲ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻻ، ﺍُﺱ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﻠﯽ ﻣﻮﻻ۔
)ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ
)ﺹ( ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺳﻨﺎ( ﺍﮮ ﻋﻠﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﻨﺰﻟﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﻣﻮﺳﯽٰ
ﺳﮯ ﺗﮭﯽ، ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ
ﻧﺒﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ )ﺳﻌﺪ( ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﻮ )ﻏﺰﻭﮦ
ﺧﯿﺒﺮ ﻣﯿﮟ( ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ
ﺍُﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ
ﺭﺳﻮﻝ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﻮﻣﻦ ﺣﺎﺟﺖ ﺭﻭﺍ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺸﺎ :
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
’’: ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺍﻣﺘﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺵ
ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ
ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ
ﮔﺎ ‘‘
ﺩﻳﻠﻤﯽ، ﻣﺴﻨﺪ ﺍﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﺑﻤﺄﺛﻮﺭ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ، 546 : 3،
ﺭﻗﻢ 5702 :
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻟﻨﮭﺎﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ﻣﻮﻻ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ
ﻣﻌﺎﻧﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺭﺏ )ﭘﺮﻭﺭﺵ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ(,ﻣﺎﻟﮏ۔ ﺳﺮﺩﺍﺭ,ﺍﻧﻌﺎﻡ
ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ,ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ,ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ,ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ,ﺗﺎﺑﻊ
)ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ(,ﭘﮍﻭﺳﯽ,ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻌﻢ )ﭼﭽﺎ
ﺯﺍﺩ(,ﺣﻠﯿﻒ )ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ (,ﻋﻘﯿﺪ
)ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ (,ﺻﮭﺮ )ﺩﺍﻣﺎﺩ، ﺳﺴﺮ (,ﻏﻼﻡ, ﺁﺯﺍﺩ
ﺷﺪﮦ ﻏﻼﻡ, ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮨﻮﺍ,ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ
ﻣﺨﺘﺎﺭ ﮨﻮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﻮ۔ ﺍﺳﮯ ﻣﻮﻻ ﺍﻭﺭ
ﻭﻟﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﻼﻡ
ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻮﻻ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ
ﮨﻮﮔﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔
ﺍﺑﻦ ﺍﺛﻴﺮ، ﺍﻟﻨﻬﺎﻳﻪ، 228 : 5
ﺧﻼﺻﮧ ﮐﻼﻡ :
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺻﻔﺎﺗﯽ ﻧﺎﻡ ﺩﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺻﻔﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺫﺍﺗﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺋﻤﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺣﺎﺩﺙ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﻗﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺫﺍﺕ ﺑﺎ ﺑﺮﮐﺎﺕ
ﮐﺮﯾﻢ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﺩ ﮨﮯ، ﺳﺨﯽ ﮨﮯ، ﻋﻄﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ، ﮐﺮﻡ،
ﺳﺨﺎﻭﺕ، ﻋﻄﺎ، ﻋﻠﻢ، ﻗﺪﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻦ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺻﻔﺎﺕ
ﻋﺎﻟﯿﮧ ﮐﺎ ﺻﺪﻗﮧ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺑﻨﺪﮮ ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ
ﻗﺪﺭﺕ، ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺳﻤﻊ ﻭ ﺑﺼﺮ، ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﮐﺮﻡ ﻭ
ﺳﺨﺎﻭﺕ، ﻋﺎﻟﻢ، ﺣﻠﯿﻢ، ﺣﮑﯿﻢ، ﻋﻠﯿﻢ، ﺭﺅﻑ، )ﺷﻔﯿﻖ(
ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻄﺎﺳﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ
ﺻﻔﺎﺕ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﺫﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺕ
ﻋﺎﺭﺿﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻄﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ
ﺍﺻﻮﻝ ﭘﯿﺶ ﺭﮨﮯ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﺣﮑﻢ )ﺣﺎﮐﻢ( ﮔﻮﺍﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﻧﺒﯽ ﻭﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﭘﻨﯽ
ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ
ﺑﭩﮭﺎﻧﺎ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ۔ ﺑﻨﺪﮦ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﻮ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﻭ ﺷﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ

Wednesday, June 23, 2021

اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق دو اہم باتیں ‏

(1)…امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت عثمان مغربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسے ان کے ایک مرید نےعرض کی :کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کی رغبت کے بغیر بھی میری زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا ہے، انہوں  نے فرمایا: یہ بھی تو شکر کا مقام ہے کہ تمہارے ایک عُضْو (یعنی زبان) کو اللّٰہ تعالیٰ نے ذِکر کی توفیق بخشی ہے۔‘‘

(2)…جس کا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  نہیں  لگتا اسے بعض اوقات شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ جب تیرا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  نہیں  لگتا تو خاموش ہو جا کہ ایسا ذکر کرنا بے ادبی ہے۔ اس شیطانی وسوسے سے بچنا چاہیے۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰیعَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس وسوسے کا جواب دینے والے لوگ تین قسم کے ہیں  ۔ ایک قسم ان لوگوں  کی ہے جو ایسے موقع پر شیطان سے کہتے ہیں  :خوب توجہ دلائی، اب میں  تجھے بیزار کرنے کے لئے دل کوبھی حاضر کرتا ہوں ، اس طرح شیطان کے زخموں  پر نمک پاشی ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ احمق ہیں  جو شیطان سے کہتے ہیں : تو نے ٹھیک کہا جب دل ہی حاضر نہیں  تو زبان ہلائے جانے سے کیا فائدہ! اور یوں  وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ یہ نادان سمجھتے ہیں  کہ ہم نے عقلمندی کا کام کیا حالانکہ انہوں  نے شیطان کو اپناہمدرد سمجھ کر دھوکا کھا لیا ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں  جو کہتے ہیں  :اگرچہ ہم دل کو حاضر نہیں  کر سکتے مگر پھر بھی زبان کو اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  مصروف رکھنا خاموش رہنے سے بہتر ہے، اگرچہ دل لگا کر ذکر کرنا اس طرح کے ذکر سے کہیں  بہتر ہے۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۱)

Tuesday, June 22, 2021

واقعہ شراب نوشی حضرت ابو شحمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حقیقت

سوال: یہ واقعہ جو عوام میں مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو کوڑے مارے اور  باقی کوڑے قبر پر بھی مارے۔ اس کے بارے میں بتائیں نوازش ہوگی۔
سائل: عبد القادر برکاتی، غازی پور، اتر پردیس۔
                    بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب: حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت ابو شحمہ کے متعلق واقعہ جس تفصیل کے ساتھ مشہور ہے کہ انھوں نے شراب نوشی کی، نشے کی حالت میں زنا سرزد ہوا، اس زنا سے ناجائز بچہ پیدا ہوا، وہ عورت حضرت عمر فاروق اعظم کی بارگاہ میں شکایت لے کر آئی، پھر حضرت عمر نے سو کوڑے مارنے کا حکم دیا، ابھی اَسِّی(۸۰) کوڑے لگے تھے کہ ان کی وفات ہو گئی، باقی کوڑے ان کی لاش یا قبر پر مارے گئے۔ -العیاذ باللہ- کتب تاریخ و تراجم و سیرت میں اس قدر جو کچھ تفصیل ملتی ہے اسے علماے متقدمین و متاخرین نے موضوع اور من گڑھت کہا ہے، اس واقعہ کو بعض قَوَّال اور جاہل قصےباز بڑی بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس واقعہ کے بارے میں اسلاف کے اقوال حسب ذیل ہیں:
امام جورقانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: هذا حديث موضوع باطل، وإسناده منقطع، وسعيد بن مسروق هذا والد سفيان الثوري، وإن كان الكندي فهما متأخران من أصحاب الأعمش، وابن أبي ليلى، والشعبي، وإبراهيم التيمي. وهذا الحديث وضعه القصاص، فمن لم يتبحر في العلوم خفي عليه أن عمر رضي الله عنه جلد ابنا له يقال له: أبو شحمة بسبب الزنا، فنعوذ بالله من الكذب والبهتان والنفاق والخذلان. اھ (الاباطیل و المناکیر)
       امام ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: هذا حديث موضوع، وضعه القصاص، وقد أبدوا فيه وأعادوا، وقد شرحوا وأطالوا۔اھ ۔۔۔ هذا حديث موضوع. كيف روي ومن أي طريق نقل؟ وضعه جهال القصاص ليكون سببا في تبكية العوام والنساء، فقد أبدعوا فيه وأتوا بكل قبيح ونسبوا إلى عمر ما لا يليق به، ونسبوا الصحابة إلى ما لا يليق بهم، وكلماته الركيكة تدل على وضعه، وبعده عن أحكام الشرع يدل على سوء فهم واضعه وعدم فقهه۔اھ
(الموضوعات) 
       امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: موضوع فيه مجاهد عن ابن عباس في حديث أبي شحمة ليس بصحيح. وقد روى من طريق عبد القدوس بن الحجاج عن صفوان عن عمر وعبد القدوس كذاب يضع وصفوان بينه وبين عمر رجال والذي ورد في هذا ما ذكره الزبير بن بكار وابن سعد في الطبقات وغيرهما أن عبد الرحمن الأوسط من أولاد عمر ويكنى أبا شحمة كان بمصر غازيا فشرب ليلة نبيذا فخرج إلى السكر فجاء إلى عمرو بن العاص فقال أقم على الحد فامتنع فقال له أخبر أبي إذا قدمت عليه فضربه الحد في داره ولم يخرجه فكتب إليه عمر يلومه ويقول ألا فعلت به ما تفعل بجميع المسلمين فلما قدم على عمر ضربه واتفق أنه مرض فمات.اھ (اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة)
      اقوال سلف سے ثابت ہوا کہ مذکورہ واقعہ جس طرح عوام میں مشہور ہے وہ موضوع اور بے بنیاد ہے۔ ہاں! البتہ کتب معتبرہ میں اتنا ذکر ضرور ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت ابو شحمہ نے مصر میں نبیذ پیا جو نشہ آور نہ ہو تو شرعًا حلال ہے، لیکن پینے کے بعد انھیں نشہ آ گیا، جب نشہ جاتا رہا تو خود حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور حد جاری کرنے کا مطالبہ کیا، حضرت عمرو بن عاص نے انکار کیا، انھوں نے کہا کہ میں اپنے والد حضرت عمر فاروق اعظم کو خبر دوں گا، حضرت عمرو بن عاص نے مجبورًا گھر کے اندر ہی ان پر حد جاری کیا، حضرت عمر فاروق اعظم کو جب یہ خبر ہوئی تو آپ ناراض ہوئے، حضرت عمرو بن عاص کو خط لکھا کہ: عام مسلمانوں کی طرح علانیہ حد کیوں نہیں جاری کیا، جب ابو شحمہ مدینہ آئے تو آپ نے انھیں تادیبًا مارا، جس کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے، تقریبًا ایک ماہ بعد وفات پا گئے۔
     امام ابن عبد البر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: و عبد الرحمن بن عمر الأوسط، هو أبو شحمة، هو الذي ضربه عمرو بن العاص بمصر في الخمر، ثم حمله إلى المدينة، فضربه أبوه أدب الوالد، ثم مرض ومات بعد شهر، هكذا يرويه معمر عن الزهري، عن سالم، عن أبيه. و أما أهل العراق فيقولون: إنه مات تحت سياط عمر، وذلك غلط. و قال الزبير: أقام عليه عمر حد الشراب فمرض و مات.اھ (الاستیعاب في معرفة الأصحاب)
     اسی طرح ”طبقات ابن سعد، اسد الغابہ، تهذيب الاسماء و اللغات، امتاع الاسماع، مرأة الزمان“ وغیرہ میں بھی ہے۔ یہی صحیح ہے، اس کے علاوہ عوام میں جو کچھ مشہور ہے وہ غلط اور موضوع ہے۔
     لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے جان بوجھ کر شراب ہی پیا، گمان غالب یہ ہے کہ انھوں نے بغیر نشہ والا نبیذ سمجھا ہو، انھیں معلوم نہ رہا ہو کہ یہ نشہ آور شراب بن چکا ہے، ورنہ خود اپنے ہی اوپر حد جاری کرنے پر اصرار کیوں کرتے؟۔ اس واقعہ کی تفصیل جسے قصے بازوں نے گڑھ لیا ہے وہ شریعت مطہرہ کے بالکل خلاف ہے، صحابہ کرام پر بہتان ہے، اسے بیان کرنا جائز نہیں۔ و اللہ تعالی اعلم۔
               کتبہ: محمداختررضامصباحی عفی عنہ
                       ۲۲/ جُمَادَی الآخرہ ١٤٣۹ھ

Shan Mohammad Qadri Baqai Ka phone Nombar

Shan Mohammad Qadri Baqai Ka phone Nombar  +917860049688 +918052097969