Tuesday, June 29, 2021

علم ‏ولایت ‏کیا ‏ہے ‏


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا میں قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند کر کے ولایت کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہ ولایت ہی فیض نبوت ہے۔ ولایت علم صحیح سے جنم لیتی ہے اور اہل ایمان میں علی سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ امت میں علم و حکمت اور معرفت کے دس حصہ تقسیم کیے گئے، ان 10 میں 9 حصے حضرت علی علیہ السلام کو دیئے گئے، باقی ایک حصہ ساری امت میں تقسیم ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد سب سے بڑا عالم علی المرتضیٰ ہے۔

ولایت کے باب میں حقیقت یہ ہے کہ ولایت اور علم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی ولی ہو اور عالم نہ ہو۔ اللہ کا ولی کبھی جاہل نہیں ہو سکتا اور جاہل شخص کبھی ولی نہیں ہو سکتا۔ جو قرآن و سنت اور دین کے علم سے محروم ہے تو وہ ہر ثواب تو پا سکتا لیکن ولی نہیں ہو سکتا۔

روحانی طور پر علی علیہ السلام سے قطع تعلقی رکھنے والا علم ولایت سے کبھی بہرہ یاب نہیں ہو سکتا۔ جو علی کی ولایت سے کتراتا اور ان سے محبت نہیں رکھتا تو وہ علم ولایت کے اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتا، جس کا دروازہ علی ہے۔

مشکل کشا کا لقب
صحیح بخاری کے مطابق حضرت علی کو ’’مشکل کشا‘‘ کا لقب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا۔ اپنے دور خلافت میں جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آتا تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے کہ علمی مشکل علی کے بغیر حل نہیں ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر علی میرے ساتھ نہیں ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔

ولی کا تصرف
قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ صبا کا واقعہ ولایت کے علمی مقام کی دلیل ہے۔ جب ملکہ صبا کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں لانے کا ذکر ہوا تو فوری جنوں کے سردار نے تخت لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس نے کہا کہ آپ کی نشست ختم ہونے سے پہلے ملکہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک جن کی یہ پیشکش مسترد کر دی کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ اللہ کا کوئی ولی یہ کام کرے۔ پھر ایک اللہ کا ولی اور عالم شخص اٹھا، جس کو کتاب کا علم تھا۔ اس ولی اللہ نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ملکہ عالیہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ جب تخت لے آیا تو اس اللہ کے ولی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں لایا بلکہ کہا کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے۔

طریقت کے باب میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ولی کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز یا کام کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا اور دعوی بھی نہیں کرتا۔ جس بندے پر اللہ کا فضل ہو تو وہ دعویٰ نہیں کرتا بلکہ عاجزی سے جھک جاتا ہے۔

مومنین کے ولی علی
حضرت علی ہر مومن کے ولی ہیں۔ ولایت اور علم کے باب میں آپ کو امت محمدی کے لیے چشمہ بنا دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ واپسی پر راستے میں غدیر خم کے مقام پر حضرت علی کی ولایت کا اعلان فرمایا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ 12 بدری صحابہ کی جماعت نے گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی اور مولا ہوں علی بھی اس کا ولی دوست اور مولا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ جو علی سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد علی ہر مومن کا ولی ہے۔

بشارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسی طرح آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگوں میں تمہارے اندر دو بڑی اہم اور عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب قرآن اور دوسری میری اہل بیعت ہے۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیا سلوک کرتے ہو۔ رہتی دنیا تک قرآن اور اہل بیعت اکھٹے رہیں گے۔ حتی کہ قیامت کے دن بھی دونوں قرآن اور میری اہل بیعت میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ کو اپنی اہل بیعت میں باقاعدہ شامل کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوہ تبوک میں تشریف لے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو فرمایا کہ آپ ادھر ہی رہو۔ جب علی نے ساتھ نہ لیجانے کا شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ مجھ سے تمہارا رشتہ وہ ہے، جو سیدنا ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے، سوائے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

فتح خیبر
اسی طرح جب خیبر فتح نہیں ہو رہا تھا تو فتح کا جھنڈا علی علیہ السلام کو تھمایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتھ یہ گواہی بھی دی کہ صرف علی اللہ اور رسول سے محبت ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کا رسول بھی علی سے محبت کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے خیبر کا جھنڈا علی کو تھما کر فتح خیبر کا بھی اعلان فرما دیا اور الگے دن سب نے دیکھا کہ خیبر میں فتح علی کے ہاتھوں سے ملی۔

یا ‏مشکل ‏کشا ‏کہنا ‏کیسا ‏ہے ‏


مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی مرضی اور حکم نہ ہو تو کوئی فرشتہ یا انسان کسی دوسرے کی مدد نہیں کر سکتا۔ مدد کرنے کی قوت اور طاقت بارگاہ ربوبیت سے ملتی ہے اور اسی کے اذن اور حکم سے مشکل کشائی ہوتی ہے۔ یہ ہستیاں خواہ فرشتے ہوں، جن ہوں یا انسان، حزب اللہ ’’یعنی اللہ کی ٹیم اور جماعت‘‘ کے کارکن ہیں اور ان کے کام، حقیقت میں اللہ کے کام ہیں۔ اس لئے نیابت کے طور پر وہ بھی ولی اور مددگار ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا :

اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰٰمَنُوا

(المائدة : 55)

’’بے شک تمہارا ولی (مددگار) تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور اہل ایمان تمہارے ولی (مددگار دوست) ہیں‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO

(التحريم : 4)

’’بے شک اللہ اس (رسول کریم) کا مولا (مددگار) ہے۔ جبریل اور نیک صاحب ایمان لوگ بھی ان کے مددگار ہیں اور اس کے بعد فرشتے بھی کھلم کھلا مددگار ہیں‘‘۔

یاد رہے کہ ’’مولا‘‘ کا لفظ کئی جگہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کے لئے استعمال ہوا ہے۔

اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِيْن.

(البقرة)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِيْر.

بے شک حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی ’’مولا‘‘ ہے لیکن قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین کو بھی مولا قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دوسرے کو مولا کہنے سے شرک نہیں ہوتا ورنہ قرآن مجید میں انہیں مولا نہ کہا جاتا۔ لیکن یہ مولا خود بخود نہیں بنے اللہ کے بنائے سے بنے ہیں۔

مخلوق کو حاجت روا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے؟

اب رہی یہ بات کہ اللہ کے سوا کیا کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا کہا جا سکتا ہے یا ایسا کہنا شرک کے دائرے میں آتا ہے؟

اس کا ایک جواب تو اوپر آگیا کہ فرشتوں اور صالح مومنین کا ’’مولا‘‘، مددگار ہونا خود قرآن سے ثابت ہے اور وہ خود مولا نہیں بنے بلکہ یہ منصب انہیں خود اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اب سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پڑھئے اور اس بارے میں خود ہی فیصلہ فرما لیجئے۔

بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة.

’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس حدیث میں رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھائی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کو قابل تحسین قرار دیں۔ لیکن ہمارے یہ نادان بھائی اس کو شرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس موضوع پر بے شمار روایات اور دلائل موجود ہیں جن میں حاجت روائی، مشکل کشائی اور مدد و نصرت کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن کوئی ایسا مسلمان نہیں جو ان بندوں کو حقیقی مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو۔ سب مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ یہ رب العزت کی ذات اقدس ہی ہے جو ان بندوں سے اس نوعیت کے کام کرواتی ہے۔

ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے حاجت روا خاص بندے ہمیشہ اور ہر دور میں رہتے ہیں اور ان کی تخلیق ہی اس مقصد کے لئے ہوتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ لِلّٰهِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائج النَّاسِ تَفْزع النَّاسُ اِلَيْهمِ فی حوائجهم اولٰئِکَ الاٰمِنُوْنَ مِنْ عَذاب اللّٰهِ.

(الترغيب والترهيب 3 : 390)

’’اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کے لئے ان سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذاب الہٰی سے محفوظ و مامون ہیں‘‘۔

علامہ محمد اقبال نے انہیں نفوس قدسیہ کے متعلق فرمایا تھا :

خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگاہ دل نواز

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز

مولیٰ ‏علی ‏رضی ‏اللہ ‏تعالیٰ ‏عنہ ‏کو ‏مشکل ‏کشا ‏کہنا ‏کیسا ‏ہے

ﻣﻮﻻ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﻣﻮﻻ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ ﻗﺮﺍﻥ
ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺩﻻﺋﻞ
ﺑﮭﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﺮﯾﺮ
ﻣﻮﻻ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ
ﺟﺎﮨﻞ ﺑﺪﻋﻘﯿﺪﮦ ﮐﻮ ﺷﺮﮎ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ
ﻣﻮﻻ ﮐﮩﺎﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺸﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﻌﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ
ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺸﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ
ﮐﻮ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺸﺎﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﮎ
ﺍﺏ ﺍﯾﺴﮯ ﺟﺎﮬﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ
ﺳﻨﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﺘﻮﮦ ﮐﻔﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ
ﺟﺒﮑﮧ ﻗﺮﺍﻥ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ
ﺟﻮﺍﺯ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ
ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺷﺮﮎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﻓَﺈِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻫُﻮَ ﻣَﻮْﻟَﺎﻩُ ﻭَﺟِﺒْﺮِﻳﻞُ ﻭَﺻَﺎﻟِﺢُ ﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨِﻴﻦَ
ﻭَﺍﻟْﻤَﻠَﺎﺋِﻜَﺔُ ﺑَﻌْﺪَ ﺫَﻟِﻚَ ﻇَﻬِﻴﺮٌo
ﺍﻟﺘﺤﺮﻳﻢ 4 : 66
’ﺳﻮ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯽ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﻭ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ
ﺟﺒﺮﯾﻞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻟﺢ ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
)ﺳﺎﺭﮮ( ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﮭﯽ )ﺍُﻥ ﮐﮯ( ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ۔‘‘
ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﻮﻻ ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ
ﮨﮯ۔ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﮐﮯ ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ )ﻣﻮﻻ ( ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ :
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﯿﮏ ﺻﺎﻟﺢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﺮﺷﺘﮯﺑﮭﯽ
ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﯽ ﻣﻮﻻ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺻﺎﻟﺢ
ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺪﺩ
ﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ‘
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮﻋﯿﺴﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﺪﺩ ﭼﺎﮨﯿﺘﮯ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﺻﺤﺎﺏ ﺳﮯ
ﻣَﻦْ ﺃَﻧﺼَﺎﺭِﻱ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟﻠّﻪِ. ﻗَﺎﻝَ ﺍﻟْﺤَﻮَﺍﺭِﻳُّﻮْﻥَ ﻧَﺤْﻦُ ﺍَﻧْﺼَﺎﺭُ ﷲِ
ﷲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﻮﻥ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ؟ )ﺗﻮ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﻣﺨﻠﺺ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ(: ﮨﻢ ﷲ ﮐﮯ
ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ،
ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ، 52 : 3
ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﺁﻗﺎﺋﮯ ﺩﻭﺟﮩﺎﮞ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺒﺐ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻭ۔‘‘
ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺴﻨﻦ، 664 :5، ﺭﻗﻢ3789 :، ﺑﻴﺮﻭﺕ، ﻟﺒﻨﺎﻥ:
ﺍﺣﻴﺎﺀ ﺍﻟﺘﺮﺍﺙ ﺍﻟﻌﺮﺑﻲ
’’ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺣﺴﻦ
ﺍﻭﺭ ﺣﺴﯿﻦ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺲ ﻧﮯ
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ
ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ
ﺣﺴﻦ ﻭﺣﺴﯿﻦ ﻋﻠﯿﮩﻤﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺭﮐﮭﺎ
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔‘‘
ﺣﺎﮐﻢ، ﺍﻟﻤﺴﺘﺪﺭﮎ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺼﺤﻴﺤﻴﻦ، 181 :3، ﺭﻗﻢ:
4776، ﺑﻴﺮﻭﺕ، ﻟﺒﻨﺎﻥ: ﺩﺍﺭﺍﻟﮑﺘﺐ ﺍﻟﻌﻠﻤﻴﺔ
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎ ﮨﮯ
ﻋﻦ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ, ﻗﺎﻝ:
ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ
ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﻦ ﻛﻨﺖ ﻣﻮﻻﻩ ﻓﻌﻠﻲ ﻣﻮﻻﻩ, ﻭﺳﻤﻌﺘﻪ ﻳﻘﻮﻝ:
ﺃﻧﺖ ﻣﻨﻲ ﺑﻤﻨﺰﻟﺔ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﻣﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺇﻻ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻧﺒﻲ
ﺑﻌﺪﻱ, ﻭﺳﻤﻌﺘﻪ ﻳﻘﻮﻝ: ﻷﻋﻄﻴﻦ ﺍﻟﺮﺍﻳﺔ ﺍﻟﻴﻮﻡ ﺭﺟﻼ
ﻳﺤﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺭﺳﻮﻟﻪ.
ﺗﺮﺟﻤﮧ: ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ )ﺹ( ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
„ ﺟﺲ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻻ، ﺍُﺱ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﻠﯽ ﻣﻮﻻ۔
)ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ
)ﺹ( ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﺳﻨﺎ( ﺍﮮ ﻋﻠﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﻨﺰﻟﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﻣﻮﺳﯽٰ
ﺳﮯ ﺗﮭﯽ، ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ
ﻧﺒﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ )ﺳﻌﺪ( ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﻮ )ﻏﺰﻭﮦ
ﺧﯿﺒﺮ ﻣﯿﮟ( ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ
ﺍُﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ
ﺭﺳﻮﻝ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﻮﻣﻦ ﺣﺎﺟﺖ ﺭﻭﺍ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺸﺎ :
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
’’: ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺍﻣﺘﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺵ
ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ
ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ
ﮔﺎ ‘‘
ﺩﻳﻠﻤﯽ، ﻣﺴﻨﺪ ﺍﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﺑﻤﺄﺛﻮﺭ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ، 546 : 3،
ﺭﻗﻢ 5702 :
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻟﻨﮭﺎﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ﻣﻮﻻ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ
ﻣﻌﺎﻧﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺭﺏ )ﭘﺮﻭﺭﺵ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ(,ﻣﺎﻟﮏ۔ ﺳﺮﺩﺍﺭ,ﺍﻧﻌﺎﻡ
ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ,ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ,ﻣﺪﺩ ﮔﺎﺭ,ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ,ﺗﺎﺑﻊ
)ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ(,ﭘﮍﻭﺳﯽ,ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻌﻢ )ﭼﭽﺎ
ﺯﺍﺩ(,ﺣﻠﯿﻒ )ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﻧﯿﻮﺍﻻ (,ﻋﻘﯿﺪ
)ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ (,ﺻﮭﺮ )ﺩﺍﻣﺎﺩ، ﺳﺴﺮ (,ﻏﻼﻡ, ﺁﺯﺍﺩ
ﺷﺪﮦ ﻏﻼﻡ, ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮨﻮﺍ,ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ
ﻣﺨﺘﺎﺭ ﮨﻮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﻮ۔ ﺍﺳﮯ ﻣﻮﻻ ﺍﻭﺭ
ﻭﻟﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﻼﻡ
ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻮﻻ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺍﺭﺙ
ﮨﻮﮔﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔
ﺍﺑﻦ ﺍﺛﻴﺮ، ﺍﻟﻨﻬﺎﻳﻪ، 228 : 5
ﺧﻼﺻﮧ ﮐﻼﻡ :
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺻﻔﺎﺗﯽ ﻧﺎﻡ ﺩﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺻﻔﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺫﺍﺗﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺋﻤﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺣﺎﺩﺙ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﻗﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺫﺍﺕ ﺑﺎ ﺑﺮﮐﺎﺕ
ﮐﺮﯾﻢ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﺩ ﮨﮯ، ﺳﺨﯽ ﮨﮯ، ﻋﻄﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ، ﮐﺮﻡ،
ﺳﺨﺎﻭﺕ، ﻋﻄﺎ، ﻋﻠﻢ، ﻗﺪﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻦ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺻﻔﺎﺕ
ﻋﺎﻟﯿﮧ ﮐﺎ ﺻﺪﻗﮧ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺑﻨﺪﮮ ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ
ﻗﺪﺭﺕ، ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺳﻤﻊ ﻭ ﺑﺼﺮ، ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﮐﺮﻡ ﻭ
ﺳﺨﺎﻭﺕ، ﻋﺎﻟﻢ، ﺣﻠﯿﻢ، ﺣﮑﯿﻢ، ﻋﻠﯿﻢ، ﺭﺅﻑ، )ﺷﻔﯿﻖ(
ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻄﺎﺳﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ
ﺻﻔﺎﺕ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﺫﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺕ
ﻋﺎﺭﺿﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻄﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ
ﺍﺻﻮﻝ ﭘﯿﺶ ﺭﮨﮯ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﺣﮑﻢ )ﺣﺎﮐﻢ( ﮔﻮﺍﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﻧﺒﯽ ﻭﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﭘﻨﯽ
ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ
ﺑﭩﮭﺎﻧﺎ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ۔ ﺑﻨﺪﮦ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﻮ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﻭ ﺷﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ

Wednesday, June 23, 2021

اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق دو اہم باتیں ‏

(1)…امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت عثمان مغربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسے ان کے ایک مرید نےعرض کی :کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کی رغبت کے بغیر بھی میری زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا ہے، انہوں  نے فرمایا: یہ بھی تو شکر کا مقام ہے کہ تمہارے ایک عُضْو (یعنی زبان) کو اللّٰہ تعالیٰ نے ذِکر کی توفیق بخشی ہے۔‘‘

(2)…جس کا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  نہیں  لگتا اسے بعض اوقات شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ جب تیرا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  نہیں  لگتا تو خاموش ہو جا کہ ایسا ذکر کرنا بے ادبی ہے۔ اس شیطانی وسوسے سے بچنا چاہیے۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰیعَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس وسوسے کا جواب دینے والے لوگ تین قسم کے ہیں  ۔ ایک قسم ان لوگوں  کی ہے جو ایسے موقع پر شیطان سے کہتے ہیں  :خوب توجہ دلائی، اب میں  تجھے بیزار کرنے کے لئے دل کوبھی حاضر کرتا ہوں ، اس طرح شیطان کے زخموں  پر نمک پاشی ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ احمق ہیں  جو شیطان سے کہتے ہیں : تو نے ٹھیک کہا جب دل ہی حاضر نہیں  تو زبان ہلائے جانے سے کیا فائدہ! اور یوں  وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ یہ نادان سمجھتے ہیں  کہ ہم نے عقلمندی کا کام کیا حالانکہ انہوں  نے شیطان کو اپناہمدرد سمجھ کر دھوکا کھا لیا ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں  جو کہتے ہیں  :اگرچہ ہم دل کو حاضر نہیں  کر سکتے مگر پھر بھی زبان کو اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  مصروف رکھنا خاموش رہنے سے بہتر ہے، اگرچہ دل لگا کر ذکر کرنا اس طرح کے ذکر سے کہیں  بہتر ہے۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۱)

Tuesday, June 22, 2021

واقعہ شراب نوشی حضرت ابو شحمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حقیقت

سوال: یہ واقعہ جو عوام میں مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو کوڑے مارے اور  باقی کوڑے قبر پر بھی مارے۔ اس کے بارے میں بتائیں نوازش ہوگی۔
سائل: عبد القادر برکاتی، غازی پور، اتر پردیس۔
                    بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب: حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت ابو شحمہ کے متعلق واقعہ جس تفصیل کے ساتھ مشہور ہے کہ انھوں نے شراب نوشی کی، نشے کی حالت میں زنا سرزد ہوا، اس زنا سے ناجائز بچہ پیدا ہوا، وہ عورت حضرت عمر فاروق اعظم کی بارگاہ میں شکایت لے کر آئی، پھر حضرت عمر نے سو کوڑے مارنے کا حکم دیا، ابھی اَسِّی(۸۰) کوڑے لگے تھے کہ ان کی وفات ہو گئی، باقی کوڑے ان کی لاش یا قبر پر مارے گئے۔ -العیاذ باللہ- کتب تاریخ و تراجم و سیرت میں اس قدر جو کچھ تفصیل ملتی ہے اسے علماے متقدمین و متاخرین نے موضوع اور من گڑھت کہا ہے، اس واقعہ کو بعض قَوَّال اور جاہل قصےباز بڑی بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس واقعہ کے بارے میں اسلاف کے اقوال حسب ذیل ہیں:
امام جورقانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: هذا حديث موضوع باطل، وإسناده منقطع، وسعيد بن مسروق هذا والد سفيان الثوري، وإن كان الكندي فهما متأخران من أصحاب الأعمش، وابن أبي ليلى، والشعبي، وإبراهيم التيمي. وهذا الحديث وضعه القصاص، فمن لم يتبحر في العلوم خفي عليه أن عمر رضي الله عنه جلد ابنا له يقال له: أبو شحمة بسبب الزنا، فنعوذ بالله من الكذب والبهتان والنفاق والخذلان. اھ (الاباطیل و المناکیر)
       امام ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: هذا حديث موضوع، وضعه القصاص، وقد أبدوا فيه وأعادوا، وقد شرحوا وأطالوا۔اھ ۔۔۔ هذا حديث موضوع. كيف روي ومن أي طريق نقل؟ وضعه جهال القصاص ليكون سببا في تبكية العوام والنساء، فقد أبدعوا فيه وأتوا بكل قبيح ونسبوا إلى عمر ما لا يليق به، ونسبوا الصحابة إلى ما لا يليق بهم، وكلماته الركيكة تدل على وضعه، وبعده عن أحكام الشرع يدل على سوء فهم واضعه وعدم فقهه۔اھ
(الموضوعات) 
       امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: موضوع فيه مجاهد عن ابن عباس في حديث أبي شحمة ليس بصحيح. وقد روى من طريق عبد القدوس بن الحجاج عن صفوان عن عمر وعبد القدوس كذاب يضع وصفوان بينه وبين عمر رجال والذي ورد في هذا ما ذكره الزبير بن بكار وابن سعد في الطبقات وغيرهما أن عبد الرحمن الأوسط من أولاد عمر ويكنى أبا شحمة كان بمصر غازيا فشرب ليلة نبيذا فخرج إلى السكر فجاء إلى عمرو بن العاص فقال أقم على الحد فامتنع فقال له أخبر أبي إذا قدمت عليه فضربه الحد في داره ولم يخرجه فكتب إليه عمر يلومه ويقول ألا فعلت به ما تفعل بجميع المسلمين فلما قدم على عمر ضربه واتفق أنه مرض فمات.اھ (اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة)
      اقوال سلف سے ثابت ہوا کہ مذکورہ واقعہ جس طرح عوام میں مشہور ہے وہ موضوع اور بے بنیاد ہے۔ ہاں! البتہ کتب معتبرہ میں اتنا ذکر ضرور ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت ابو شحمہ نے مصر میں نبیذ پیا جو نشہ آور نہ ہو تو شرعًا حلال ہے، لیکن پینے کے بعد انھیں نشہ آ گیا، جب نشہ جاتا رہا تو خود حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور حد جاری کرنے کا مطالبہ کیا، حضرت عمرو بن عاص نے انکار کیا، انھوں نے کہا کہ میں اپنے والد حضرت عمر فاروق اعظم کو خبر دوں گا، حضرت عمرو بن عاص نے مجبورًا گھر کے اندر ہی ان پر حد جاری کیا، حضرت عمر فاروق اعظم کو جب یہ خبر ہوئی تو آپ ناراض ہوئے، حضرت عمرو بن عاص کو خط لکھا کہ: عام مسلمانوں کی طرح علانیہ حد کیوں نہیں جاری کیا، جب ابو شحمہ مدینہ آئے تو آپ نے انھیں تادیبًا مارا، جس کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے، تقریبًا ایک ماہ بعد وفات پا گئے۔
     امام ابن عبد البر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: و عبد الرحمن بن عمر الأوسط، هو أبو شحمة، هو الذي ضربه عمرو بن العاص بمصر في الخمر، ثم حمله إلى المدينة، فضربه أبوه أدب الوالد، ثم مرض ومات بعد شهر، هكذا يرويه معمر عن الزهري، عن سالم، عن أبيه. و أما أهل العراق فيقولون: إنه مات تحت سياط عمر، وذلك غلط. و قال الزبير: أقام عليه عمر حد الشراب فمرض و مات.اھ (الاستیعاب في معرفة الأصحاب)
     اسی طرح ”طبقات ابن سعد، اسد الغابہ، تهذيب الاسماء و اللغات، امتاع الاسماع، مرأة الزمان“ وغیرہ میں بھی ہے۔ یہی صحیح ہے، اس کے علاوہ عوام میں جو کچھ مشہور ہے وہ غلط اور موضوع ہے۔
     لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے جان بوجھ کر شراب ہی پیا، گمان غالب یہ ہے کہ انھوں نے بغیر نشہ والا نبیذ سمجھا ہو، انھیں معلوم نہ رہا ہو کہ یہ نشہ آور شراب بن چکا ہے، ورنہ خود اپنے ہی اوپر حد جاری کرنے پر اصرار کیوں کرتے؟۔ اس واقعہ کی تفصیل جسے قصے بازوں نے گڑھ لیا ہے وہ شریعت مطہرہ کے بالکل خلاف ہے، صحابہ کرام پر بہتان ہے، اسے بیان کرنا جائز نہیں۔ و اللہ تعالی اعلم۔
               کتبہ: محمداختررضامصباحی عفی عنہ
                       ۲۲/ جُمَادَی الآخرہ ١٤٣۹ھ

اسلام ‏میں ‏سب ‏سے ‏پہلے ‏کس ‏کی ‏نماز ‏جنازہ پڑھائ ‏گئی؟

سوال :اسلام میں سب سے پہلے کس کی نماز جنازہ پڑھائی گئی؟۔
                  بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب: اسلام میں سب سے پہلے حضرت براء بن معرور رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازجنازہ پڑھائی گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی ،مگر صحیح روایت یہ ہے کہ سب سے پہلے حضرت براء بن معرور کی نماز جنازہ پڑھائی گئی ؛اس لیے کہ حضرت براء بن معرور کی وفات ہجرت سے ایک ماہ پہلے ہوئی ،مدینہ تشریف لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ ان کی قبر پر چار تکبیرات کے ساتھ نماز جنازہ پڑھا ،اور حضرت اسعد بن زرارہ کی وفات ہجرت کے نو ماه بعد ہوئی۔ جیسا ان ان عبارتوں سے ثابت ہوتا ہے ۔
      امام نور الدین حلبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: أنه صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة وجد البراء بن معرور قد مات فذهب هو وأصحابه فصلى على قبره، وأنها أول صلاة صليت على الميت في الإسلام... لا يقال: يجوز أن يكون المراد بتلك الصلاة مجرد الدعاء. لأنا نقول قد جاء أنه كبر في صلاته أربعا. وقد روى هذه الصلاة تسعة من الصحابة ذكرهم السهيلي، وسيأتي عن الإمتاع: لم أجد في شيء من السير متى فرضت صلاة الجنازة، ولم ينقل أنه صلى الله عليه وسلم صلى على أسعد بن زرارة وقد مات في السنة الأولى: ولا على عثمان بن مظعون وقد مات في السنة الثانية. و في كلام بعضهم: صلاة الجنازة فرضت في السنة الأولى من الهجرة، وأول من صلى عليه صلى الله عليه وسلم أسعد بن زرارة فليتأمل. اھ (السيرة الحلبية ،ج :١ ،ص :٤٨٩۔ دار الكتب العلمية ،بيروت)
      امام حاکم ابو عبد اللہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: كان موت البراء بن معرور في صفر قبل قدوم النبي صلى الله عليه وسلم بشهر. اھ (المستدرک علی الصحیحین ،ج:٣، ص: ١٩٩، دار الکتب العلمیہ بیروت)
      نیز فرماتے ہیں: مات أسعد بن زرارة في شوال على رأس تسعة أشهر من الهجرة. اھ (المستدرک علی الصحیحین ،ج:٣ ،ص :٢٠٦)
      ان دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اسلام میں مطلقاً سب سے پہلے حضرت براء بن معرور کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور میت کو سامنے رکھ کر سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ و اللہ تعالی اعلم۔
       کتبہ: محمد اختر رضا مصباحی عفی عنہ
                ۲٦/ جُمَادَی الاولی ١٤٣٦ھ

حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ افضل البشر بعد الانبیاء ہیں ‏

مسئلہ :کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ زید حضرت علی کو خلفاے ثلاثہ سے افضل جانتا ہے اور سب سے پہلے انھیں کو خلافت کا مستحق سمجھتا ہے ۔
مستفتی :ابو عمر قادری 
                    بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب :زید کا یہ عقیدہ باطل محض ہے، یہ روافض کا عقیدہ ہے ،اہل سنت کا عقیدہ ہرگز نہیں ہے ،انبیاے كرام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں ،پھر حضرت عمر ،پھر حضرت عثمان غنی ،پھر حضرت علی ہیں ۔۔ رضی اللہ تعالی عنہم ۔۔ یہی احادیث کریمہ و اقوال ائمہ سے ثابت ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو فضائل الصحابہ میں روایت کی ہے:
     عن أبي الدرداء قال: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم أمشي أمام أبي بكر فقال: «يا أبا الدرداء، أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة؟ ما طلعت الشمس، ولا غربت، على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر».
     
إن ابن عمر قال: كنا نقول ورسول الله صلى الله عليه وسلم حي: «أفضل أمة النبي صلى الله عليه وسلم بعده أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، رضي الله عنهم أجمعين »رواه ابو داؤد (سنن ابو داؤد ،ج :٤ ،ص :٢٠٦)
         حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں :کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ میں کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت میں سب سے افضل حضرت ابو بکر ہیں ،پھر حضرت عمر ،پھر حضرت عثمان ہیں ۔۔رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ۔۔
        عن عبد خير قال: سمعت عليا يقول على المنبر: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وعمر، ولو شئت أن أسمي الثالث لسميته. (مسند احمد ابن حنبل ،ج :٢ ،ص :٥٦ ،دار الحديث ،القاهره)
        عبد خیر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں حضرت علی کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابو بکر ہیں ،پھر حضرت عمر ہیں ،اگر تم چاہتے ہو کہ میں تیسرے کو بھی ذکر کر دوں تو ضرور ذکر کروں گا ۔
عن أبي جحيفة قال: قام علي، على منبر الكوفة قال: «ألا أنبئكم بخير هذه الأمة بعد نبيها؟ ألا إن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر، ولو شئت أن أخبركم بالثالث لأخبرتكم ».رواه الطبراني
(المعجم الاوسط ،ج :٧ ،٢٣٩ ،دار الحرمين ،القاهرة)
        ابو جحیفہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کوفہ کے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کیا میں تمھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل شخص کی خبر نہ دوں ؟جان لو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابو بکر ہیں ،پھر حضرت عمر ہیں ،اگر تم چاہو تو تیسرے کا بھی ذکر کر دوں تو ضرور ذکر کر دوں گا ۔
        امام ابن عربی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :لقد تواتر عن أمير المؤنين علي رضي الله عنه أنه كان يقول على منبر الكوفة: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر روى المحدثون والمؤرخون هذا عنه من أكثر من ثمانين وجها. ورواه البخاري وغيره. 
         وكان علي رضي الله عنه يقول: لا أوتي بأحد يفضلني على أبي بكر وعمر إلا ضربته حد المفتري .اه‍
(العواصم ،ص ٢٧٤ ،دار الجيل ،بيروت)
         حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو بھی شخص مجھے حضرت ابو بکر سے افضل کہے گا میں اس پر افترا کرنے والے کا حد جاری کروں گا ۔
         امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :وأفضل الناس بعد النبيين عليهم الصلاة والسلام أبو بكر الصديق ثم عمر بن الخطاب الفاروق ثم عثمان بن عفان ذو النورين ثم علي بن أبي طالب المرتضى رضوان الله عليهم أجمعين .اھ
(الفقه الاكبر ،ص :٤١ ،مكتبة الفرقان)
        امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : أجمع أهل السنة أن أفضل الناس -بعد رسول الله عليه الصلاة والسلام- أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي .اھ
(تاريخ الخلفاء ،ص :٣٨ ، الناشر: مكتبة نزار مصطفى الباز)
       مذکورہ  احادیث کریمہ و اقوال ائمہ سے ثابت ہوا کہ انبیا کے بعد سب سے افضل حضرت ابو بکر ہیں، جو سب سے افضل ہوتا ہے وہی امامت و خلافت کا مستحق ہوتا ہے ؛لہذا حضرت ابو بکر ہی خلافت کے سب سے پہلے حق دار ہوئے ۔
        عن النزال بن سبرة قال: قلنا لعلي: يا أمير المؤمنين أخبرنا عن أبي بكر، قال: ذاك امرؤ سماه الله الصديق على لسان جبريل، وعلى لسان محمد، كان خليفة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على الصلاة، رضيه لديننا فرضيناه لدنيانا، إسناده جيد.
(تاریخ الخلفاء ص ٢٨ )
        نزال بن سبرہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے حضرت علی سے کہا اے امیر المومنین !ہمیں حضرت ابو بکر کے بارے میں بتائیں ،آپ نے فرمایا وہ ایسے انسان ہیں جنھیں اللہ تعالی نے حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبریل علیہ السلام کی زبان پر صدیق کہلوایا ،نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے ،آپ ان سے ہمارے دین کے لیے راضی تھے ،تو ہم ان سے اپنی دنیا کے لیے راضی ہیں ۔
        اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ حضرت ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ خلافت کے سب سے پہلے حق دار تھے ؛کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت عمر ،حضرت عثمان غنی ،اور حضرت علی ۔۔ رضی اللہ عنہم ۔۔ کے ہوتے ہوئے بھی حضرت ابو بکر صدیق کو امامت کا حکم دیا ،حضور صلى اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام نے بہ اتفاق راے آپ کی خلافت کی بیعت قبول کی ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ خلیفہ برحق تھے ،اس کے خلاف عقیدہ رکھنا خرق اجماع اور اہل سنت کی مخالفت ہے ؛لہذا زید پر لازم ہے کہ اپنے باطل عقیدہ سے توبہ و استغفار کرے ۔۔ و اللہ تعالی اعلم ۔
کتبہ :محمداختررضامصباحی عفی عنہ 
        ٢٤ /محرم الحرام ١٤٣٧ھ

ایصال ‏ثواب ‏کا ‏شعی ‏حکم ‏

مسئلہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
١۔۔ کسی کے انتقال ہونے پر مٹی دینے کے بعد قبر کے پاس کھڑے رہ کر جو ایصال ثواب کرتے ہیں۔ کیا یہ ثابت ہے ؟۔
۲۔ اور ایصال ثواب کے لیے کیا کچھ مخصوص دعائیں اور آیات بتائی گئی ہیں۔
۳۔ ایصال ثواب کا مسنون طریقہ کیا ہے؟۔
سائل: محمد ساجد ،جون پور ،یوپی۔

                       بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب : و عليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
١۔ ٢۔ میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر ایصال ثواب کرنا حدیث پاک سے ثابت ہے۔ میت کے سرھانے کی طرف سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں یعنی الم سے مفلحون تک اور پائتانے کی طرف آخری آیتیں یعنی ”لله ما في السموٰات“ سے ”على القوم الكافرين“ تک پڑھنا چاہیے۔
     عن عبد الله بن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة» . رواه البيهقي في شعب الإيمان. وقال: والصحيح أنه موقوف عليه. (مشكاة المصابيح ،باب دفن الميت)
     حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،جب تم میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو اسے نہ روکو ،قبر کی طرف تیزی سے لے جاؤ اور اس کے سرھانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں ،پائتانے کی طرف آخری آیتیں پڑھے ۔
     امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: إذا دخلتم المقابر فاقرؤوا بفاتحة الكتاب والمعوذتين وقل هو الله أحد واجعلوا ذلك لأهل المقابر فإنه يصل إليهم. اھ (التذكرة للإمام القرطبي ،ص :٢٧٤ دار المنهاج)
     یعنی جب قبرستان میں داخل ہو تو سورہ فاتحہ ،معوذتین (یعنی قل اعوذ برب الناس اور قل اعوذ برب الفلق) اور قل ھو الله احد پڑھو پھر قبرستان والوں کو ایصال ثواب کرو وہ انھیں پہنچتا ہے ۔
     ان کے علاوہ جو بھی آیات کریمہ، آیۃ الكرسى، اوراد و وظائف، کلمہ، درود اور دعائیں میسر آئیں انھیں پڑھ کر ایصال ثواب کرنا جائز اور باعث ثواب ہے۔
 ٣۔۔ ایصال ثواب کا کوئی مسنون طریقہ متعین نہیں ہے جو طریقہ علماے کرام کے درمیان رائج ہے وہ بہتر اور مستحسن ہے۔ و اللہ تعالی اعلم۔
كتبہ :محمداختررضا قادری مصباحی عفی عنہ
         ٦/ شعبان المعظم ١٤٣٧ھ

Monday, June 21, 2021

دنیا ‏میں ‏اللہ ‏کے ‏عذاب ‏سے ‏کون ‏لوگ ‏بچینگے ‏قرآن ‏مجید ‏کے ‏مطابق ‏


پھر جب انہوں نے اس نصحتہ کو (بالکل ہی) فراموش کر دیا جو انہں کی جارہی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لات جو برائی سے روکتے تھے اور ان لوگوں کو جو ظالم تھے، ان کی نافرمانولں کی وجہ سے بہت برے عذاب مںک پکڑ لاج

سورہ الاعراف آیت نمبر 164

نہی عن المنکر کے متعلق احادیث نبوی :۔ ١۔ نعمان بن بشر رضی اللہ عنہ کہتے ہںا کہ رسول اللہ صلی اللہ علہی وسلم نے فرمایا ''اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں اور خلاف ورزی دیکھ کر خاموش رہنے والوں کی مثال اییپ ہے جسےہ ان لوگوں کی جنہوں نے کسی جہاز مںس بٹھنےر کے لےا قرعہ اندازی کی۔ کچھ لوگوں کے حصے مںک نچلی منزل آئی اور دوسروں کے حصہ مںس اوپر کی منزل۔ اب نچلی منزل والے جب پانی لے کر بالائی منزل والوں کے پاس سے گزرتے تو انہں اس سے تکلفل پہنچتی۔ یہ دیکھ کر نچلی منزل والوں مںے سے ایک نے کلہاڑی لی اور جہاز کے پندبے مںز سوراخ کرنے لگا۔ بالائی منزل والے اس کے پاس آئے اور کہا تمہںہ یہ کای ہو گال ہے۔ اس نے جواب دیا تمہں ہماری وجہ سے تکلف پہنیخ اور ہمارا پانی کے بغرا گزارا نہں ۔ اب اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لان تو اسے بھی بچا لاس اور خود بھی بچ گئے اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کار اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کال۔'' (بخاری۔ ۔ کتاب الشرکۃ ہل یقرع فی القسمۃ۔ نز کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات۔)
٢۔ آپ صلی اللہ علہر وسلم نے فرمایا : ''جو شخص تم مں۔ سے کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہےے کہ اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے روکے یہ بھی نہ کر سکے تو دل مںے ہی برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔'' (مسلم، کتاب الایمان باب باھن کون النہی عن المنکر من الایمان)
٣۔ سد نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہںر کہ مں نے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے) دیںھت اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسرں۔ زیر آیت سورہ مائدہ آیت نمبر ١٠١)
اصحاب السّبت پر عذاب کی نوعتپ:۔ بعض مفسرین کا خاہل ہے کہ قرآن مں ان تینوں گروہوں مں سے ایک کے متعلق فرمایا کہ ہم نے برائی سے منع کرنے والوں کو بچا لاس اور جو نافرمانی کرنے والے تھے انں ک عذاب مں پکڑ لای۔ رہا درماون مں تسربا گروہ جو خود نافرمانی نہںی کرتا تھا اور منع بھی نہ کرتا تھا اس کے لئے قرآن نے سکوت اختاور کا ہے تو ہمں بھی سکوت اختاتر کرنا چاہےو۔
ایک تسر ا قول یہ ہے کہ عذاب دو طرح کے آئے تھے۔ ایک بڑا عذاب جس کا ذکر آیت نمبر ١٦٥ مں ہے اس مں دونوں گروہ ماخوذ ہوئے نافرمانی کرنے والے بھی اور برائی سے منع نہ کرنے والے بھی اور دوسرا عذاب بندر بنا دینے کا تھا اور وہ حد سے گزرنے والوں کے لےی تھا اس عذاب مںی صرف وہی لوگ ماخوذ ہوئے جو نافرمان تھے۔

معراج ‏میں ‏دیدار ‏الہی ‏کا ‏شرعی ‏ثبوت

مسئلہ :کیا معراج میں آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی مبارک نگاہوں سے رب ذو الجلال کا دیدار کیا ؟کیا اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف ہے؟ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث: ((من حدثك أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد كذب)) کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آپ نے اللہ تعالی کو نہیں دیکھا۔
مستفتی: محمد رئیس اختر نعمانی، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی ۔
                    بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب: جمہور صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ مجتہدین اور علماے کرام کے نزدیک یہی ہے معراج میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اللہ تعالی کو دیکھا۔
      ارشاد باری ہے: ما كذب الفؤاد ما رأى (١١) أفتمارونه على ما يرى (١٢) ولقد رآه نزلة أخرى (١٣) عند سدرة المنتهى (١٤) عندها جنة المأوى (١٥) إذ يغشى السدرة ما يغشى (١٦) ما زاغ البصر وما طغى (١٧)   (النجم: ١١--١٧)
      دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا، تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو، انھوں نے تو وہ جلوہ دو بار دیکھا، سدرۃ المنتہی کے پاس، اس کے پاس جنۃ الماوی ہے، جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا، آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ (کنز الایمان)
         حضرت عبد الرحمان بن عائش رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: «رأيت ربي في أحسن صورة قال: فيم يختصم الملأ الأعلى؟ فقلت: «أنت أعلم يا رب»، قال: " فوضع كفه بين كتفي فوجدت بردها بين ثديي فعلمت ما في السموات والأرض». (سنن الدارمي، ج: ٢‘ باب في رؤية الرب تعالى في النوم)
         یعنی میں نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا ،اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ :مقرب فرشتے کس بارے میں اختلاف کرتے ہیں ؟میں نے عرض کیا :یا اللہ تو زیادہ بہتر جانتا ہے ،آپ نے فرمایا کہ :اللہ تعالی نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کیا ،اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے انھیں میں نے جان لیا۔
        حضرت عکرمہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں: رأى محمد ربه، قلت: أليس الله يقول: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار} قال: ويحك، ذاك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره، وقد رأى محمد ربه مرتين. (سنن الترمذی ،ج :٥ ،ص :٢٣٨ ،دار الغرب الإسلامي ،بيروت)
       حضور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا، میں نے ان سے کہا: کیا اللہ تعالی نے نہیں فرمایا ہے: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار} [الأنعام :١٠٣] آنکھیں اسے احاطہ نہیں کر سکتیں، اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں۔ انھوں نے فرمایا: تیرا برا ہو! یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالی صرف اپنے نور کے ساتھ تجلی فرمائے، اور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو بار دیکھا ہے۔
          عن أنس :أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه تبارك وتعالى. (مسند البزار ،ج :١٣ ،ص :٤٢٦ ،مكتبة العلوم والحكم)
         حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔
         عن الشعبي، أن عبد الله بن عباس، كان يقول: «إن محمدا صلى الله عليه وسلم، رأى ربه مرتين: مرة ببصره، ومرة بفؤاده» (المعجم الاوسط ،ج :٦ ،ص :٥٠ ،دار الحرمين ،القاهرة)
         حضرت امام شعبی سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی دو بار زیارت کی ایک بار اپنی نگاہوں سے ایک بار اپنے دل سے ۔
          مذکورہ احادیث مبارکہ و آثار صحابہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی تعالی علیہ وسلم نے اللہ تعالی کو دیکھا ،بلکہ امام شعبی کی روایت سے تو نگاہ اور دل دونوں سے دیکھنا ثابت ہوتا ہے۔ البتہ زیارت کی کیفیت میں اختلاف تھا، بعض علما کے نزدیک دل سے دیکھا، بعض علما کے نزدیک آنکھوں سے  دیکھا، اکثر علما کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ آپ نے رب تعالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور اب صدیوں سے اسی پر علماے اہل سنت کا اتفاق ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی کے رویت باری تعالی کا انکار کسی حدیث مرفوع کی دلیل سے نہیں ہے، بلکہ ان کا آیت کریمہ (لا تدركه الابصار) سے اپنا اجتہاد ہے اور مجتہد سے خطا ہونا ممکن ہے، مزید آپ معراج جسمانی کو ہی نہیں مانتی ہیں، ایسا اس لیے ہے کہ معراج کے وقت آپ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں آئیں تھیں، نکاح کے بعد بھی آپ عموماً گھر ہی میں رہتی تھیں، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے درمیان ہونے والی بہت سی باتوں کا علم آپ کو نہیں ہوتا تھا، اور گھر کے اندر کی باتیں صحابہ کرام کے علم میں نہیں ہوتی تھیں، اس لیے عین ممکن ہے کہ معراج جسمانی اور رویت باری تعالی سے متعلق احادیث مبارکہ آپ تک نہ پہنچی ہوں۔
         امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”ورأى -صلى الله تعالى عليه وآله وسلم- ربه سبحانه وتعالى ليلة الإسراء بعيني رأسه، هذا هو الصحيح الذي قاله ابن عباس، وأكثر الصحابة والعلماء رضي الله عنهم أجمعين و منعته عائشة وطائفة من العلماء -رضي الله عنهم أجمعين- وليس للمانعين دليل ظاهر، وإنما احتجت عائشة بقوله تعالى: {لا تدركه الأبصار } وأجاب الجمهور عنه بأن الإدراك هو الإحاطة والله تعالى لا يحاط به؛ لكن يراه المؤمنون في الدار الآخرة بغير إحاطة وكذلك رآه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ليلة الإسراء“. اھ (فتاوى النووي ،ص :٣٧ ،دَارُ البشائرِ الإسلاميَّة للطبَاعَة بَيروت)
         اسی طرح شرح مسلم ،الکواکب الدراری ،شرح السيوطی ،البدایہ و النہایہ ،شرح طیبی ،شرح الشفا ،مرقاة المفاتیح ،سبل الہدی و الرشاد ،سیرت حلبیہ ،امتاع الاسماع ،بہجۃ المحافل ، حیاة الحیوان اور فتاوی رضویہ وغیرہ میں بھی ہے۔ و الله تعالى اعلم ۔
کتبہ :محمداختررضامصباحی عفی عنہ
          ٢٥ /محرم الحرام ١٤٣٧ھ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بركاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماے دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے کہ نہیں ؟اگر دیکھا ہے تو حدیث پاک کے حوالہ سے جواب عنایت فرمائیں۔
مستفتی :محمد عزرائیل ،مہوتری ،نیپال ۔
            بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ .
          رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے معراج میں اللہ تعالی کو دیکھا جیسا کہ حدیثِ پاک سے ثابت ہے -
          حضرت عبد الرحمان بن عائش رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا» :رأيت ربي في أحسن صورة «قال :فيم يختصم الملأ الأعلی ؟فقلت» :أنت أعلم يا رب «قال» :فوضع كفه بين كتفي فوجدت بردها بين ثديي، فعلمت ما في السموات والأرض، «وتلا} وكذلك نري إبراهيم ملكوت السموات والأرض وليكون من الموقنين] .{الأنعام :٧٥ [رواه الدارمي
          یعنی میں نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ :مقرب فرشتے کس بارے میں اختلاف کرتے ہیں ؟میں نے عرض کیا :یا اللہ تو زیادہ بہتر جانتا ہے ،آپ نے فرمایا کہ :اللہ تعالی نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کیا ،اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے انھیں میں نے جان لیا ،پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔} وكذلك نري إبراهيم ملكوت السماوات والأرض وليكون من الموقنين] {الأنعام :٧٥[
         اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمان اور زمین کی ؛اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے ۔) کنز الایمان(
         سبل الہدی و الرشاد میں ہے :اختلفوا :هل رآه بعينه أو بقلبه؟ والقولان رويا عن الإمام أحمد .و قال الإمام النووي: الراجح عند أكثر العلماء إن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ربه بعيني رأسه ليلة المعراج .اھ
(ج :٣ ۔ ص :٥٩ دار الکتب العلمیہ بیروت) 
         يعنى اللہ تعالی کی زیارت کے بارے میں علما کے دو اقوال ہیں :ایک یہ کہ رسول اللہ صلی تعالی علیہ وسلم نے اللہ تعالی کو اپنے دل سے دیکھا ،دوسرا یہ کہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اکثر علما کے نزدیک یہی راجح ہے ۔ و الله تعالی اعلم
کتبہ :محمداختررضامصباحی عفی عنہ
        ٨ /ذی الحجہ ١٤٣٦ھ


Shan Mohammad Qadri Baqai Ka phone Nombar

Shan Mohammad Qadri Baqai Ka phone Nombar  +917860049688 +918052097969